

مدرسہ عارف العلوم
فتوے
انبیاءکرام کو حضور ﷺ کا صحابی کہنا
سوال
مفتی صاحب ہمارے یہاں قرآن شریف کا مسابقہ ہوا اس میں ایک مفتی صاحب کا بیان ہوا جو وقف دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہیں انہوں نے بیان کرتے ہوئے ایک بات بولے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج کی سفر میں بیت المقدس میں پورے انبیاء علیہ السلام کی امامت کرے اس بات کو بولتے ہوئے مفتی صاحب پورے پیغمبروں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کہنے لگے کیا اس طرح پیغمبروں کو صحابی کہنے کا صحیح ہے یا نہیں کیا حضرت ابوبکر (رض) اور دیگر صحابہ کو ایک جیسا مرتبہ ہے برائے مہربانی وضاحت فرمائیے عین نوازش ہوگی؟
جواب
صحابی اصطلاح شریعت میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی حضور ﷺ سے ایمان کی حالت میں ملاقات ہوئی ہو،ساری زندگی حضورﷺ کی شریعت کا پابند اور تابع ہو،اور ایمان کی حالت میں اس کا انتقال ہوا ہو۔
معراج کے موقع پر انبیاء کرام علیہم التسلیمات کی ملاقات حضور سرور کونین ﷺ سے ثابت ہے ،لیکن اس ملاقات کی وجہ سے ان انبیاء کرام کو اصطلاحا صحابی نہیں کہا جاسکتا،کیونکہ صحابی وہ ہوتا ہے جو حضور ﷺ کی شریعت کا تابع ہو،البتہ لغوی اعتبار سے ان انبیاء کرام ؑکو صحبت ِنبی کریم ﷺ کی وجہ صحابی کہا جائے تو مضائقہ نہیں ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین وصف صحابیت میں متفق ہونے کے باوجود ان میں درجات اور مراتب ثابت ہیں ،امت کااجماع ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد تمام صحابہ اور تمام بشر میں افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔
تعریفات میں ہے :
الصحابي: هو في العُرْفِ من رأى النبي صلى الله عليه وسلم وطالت صحبته معه، وإن لم يرو عنه صلى الله عليه وسلم. وقيل: وإن لم تَطُلْ
(باب الصاد)
موسوعہ الفقہیۃ الکوتیۃ میں ہے :
وَالصَّحَابِيُّ اصْطِلَاحًا: مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم مُؤْمِنًا بِهِ وَمَاتَ عَلَى الإِْسْلَامِ
(باب القاف ،قول الصحابی)
الفقہ الاکبر لابی حنیفۃ ؒمیں ہے :
وَأفضل النَّاس بعد النَّبِيين عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام أَبُو بكر الصّديق ثمَّ عمر بن الْخطاب الْفَارُوق ثمَّ عُثْمَان بن عَفَّان ذُو النورين ثمَّ عَليّ بن أبي طَالب المرتضى رضوَان الله عَلَيْهِم أَجْمَعِينَ
(باب المفاضلۃ بین الصحابہ صفحہ 41 ط مکتبہ الفرقان الامارات العربیۃ)
دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون کے فتاوی میں ہے :
باقی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے بعد باجماع امت صحابہ کرام میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
(انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے بعد سب سے افضل کون ہے؟فتوی نمبر : 144503101324)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کرچی
28جمادی الاخرۃ 1445ھ/11جنوری 2024 ء
فتویٰ نمبر:362
والد کے ساتھ بدسلوکی کرنا
سوال
محترم جناب مفتی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد از سلام عرض یہ ہے کہ میری حیدری مارکیٹ بلاک G میں پانچ عدد دوکانیں اور ایک عدد فلیٹ ہے ۔ ایک دوکان میں کپڑے اور ٹریلرنگ کا کاروبار ہے اور چار دوکانوں میں فرنیچر کا کاروبار ہے اور فلیٹ میں گودام بنا ہوا ہے ۔ یہ تمام پراپرٹی پگڑی سسٹم پر ہے اور کرایہ کورٹ میں جمع ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ میرے دو عدد فلیٹ گلزار ہجری اسکیم نمبر 33 میں بھی ہیں یہ دونوں فلیٹ اونر شپ پر ہیں ۔ میری عمر 65 سال ہے اور میرے پیر قبر میں لٹک رہے ہیں میں نے کچھ لوگوں کا قرضہ دینا ہے جو کہ تقریبا 70 سے 80 لاکھ روپے ہیں میں نے جن لوگوں کا قرضہ دینا ہے ان لوگوں نے میرے خلاف مقدمات کئے ہوئے ہیں ۔ میں اپنی پراپرٹی بیچ کر ان لوگوں کا قرضہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن میری اولاد اور میری بیوی اور میرا چچا زاد بھائی اور میری سالی یہ لوگ مجھے قرض ادا کرنے نہیں دے رہے میرے دو بیٹوں ( وقاص اور معاذ ) نے گودام کی ڈوپلیکیٹ چابیاں بنواکر 4 فروری 2022ء کی رات کو گودام میں رکھے ہوئے ڈھائی لاکھ روپے کیش اور تمام پراپرٹی کی فائلیں چرالیں اور میرے ساتھ جھگڑا کرنےلگے کہ اب یہ ساری پراپرٹی اور اس میں رکھا ہوا سارا مال اب ہمارا ہے تم جیل جاؤ ہم تمہیں اس میں سے کوئی چیز بھی نہیں لینے دیں گے ساری رات مجھ سے جھگڑا کرتے رہے مجھے مارا اور گالیاں بھی دیں ۔
5 فروری 2022ء کو صبح تقریبا 11 سے 12 بجے کا وقت تھا مجھے زبر دستی ڈنڈا ڈولی کر کے کراچی نفسیاتی ہسپتال کے مینٹل وارڈ میں لے گئے ہسپتال کے دو عدد ملازم بھی ان کے ساتھ ان کی مدد کر رہے تھے اور مجھے کراچی نفسیاتی ہسپتال کے مینٹل وارڈ واقع نارتھ ناظم آباد بلاک B ضیاء الدین ہسپتال کے سامنے والی گلی میں جمع کرادیا ۔
تقریبا ایک ماہ بعد مجھے وہاں سے نکالا اور بولے اب ہمارا کام ہوگیا ہم نے مینٹل سر ٹیفکیٹ بنوالیا ہے اب تمہاری کہیں سنوائی نہیں ہوگی اب اگر تم ہمارا کہنا نہیں مانوگے تو تمہیں چوتھی منزل کی چھت سے نیچے پھینک دیں گے اور کہ دیں گے کہ پاگل تھا خود اوپر سے چھلانگ لگائی ہے پولیس بھی ہمارا کچھ نہیں کر سکے گی ۔
مجھے گھر میں میرے کمرے میں قید کر دیا ہے اور کمرے کے دروازے پر لاک والا آہنی والا لاک لگادیا ہے جب مجھے گھر میں قید کیا ہوا تھا کہ میری بیوی کو دو ماہ قبل ہارٹ اٹیک ہوا تھا کارڈیووارڈ لیاقت نیشنل ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 16 فروی 2023 کو میری بیوی کا انتقال ہو گیا ۔
بیوی کے انتقال کے بعد میرے ساتھ کچھ نرمی کی گئی ہے اب دروازے پر تالا نہیں لگایا جاتا ورنہ بیوی تالا لگا کر چابی اپنے پاس رکھتی تھی اب میں فلیٹ کے باہر چھوٹا موٹا سودا سلف لینے جا سکتا ہوں لیکن زیادہ دور نہیں جا سکتا اور نہ میں اکیلا جا سکتا کوئی نہ کوئی میرا بیٹا میرے ساتھ ہوتا ہے ابھی موقع ملا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں کیا کروں جس کی وجہ سے میرے لئے قبر اور حشر میں آسانی ہو ۔ قید میں زندگی گزار رہا ہوں واپس گھر جاؤں گا نہ جانے میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا قبر اور حشر کی فکر میں ہوں برائے مہر بانی میری راہنمائی فرمائے کیونکہ ہر چیز پر اب اولاد نے قبضہ کیا ہوا ہے اور انہیں خالہ اور چچا کی سپورٹ حاصل ہے ۔
نوٹ : قرآن و حدیث کا حوالہ بھی دیجئے اور جو لوگ میرے اولاد کو گمراہ کر رہے ہیں ان کے متعلق بھی آگاہ کیجئے ۔
جواب
واضح رہے کہ شریعت کا اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ والد کی زندگی میں اس کی جائیداد میں اولاد کا کوئی حصہ نہیں ہے،بلکہ والد اپنے کمائی ،جائیداد میں خود مختار ہے،شرعا اپنے مال میں اس کو تصرف کا کلی اختیار حاصل ہے،اوردوسرا اصول یہ ہے کہ اگر والد کے ذمہ قرضہ ہو تو اس کا ترکہ اولاد میں تقسیم کرنے سے قبل پہلے قرضہ ادا کیا جائیگا ،اگر قرضہ ادا کرنے کے بعد رقم بچ جائےتو بقیہ مال اولاد میں تقسیم ہوگا ورنہ نہیں ۔
صورت مسؤلہ میں سائل اپنا قرضہ ادا کرنے کے لئے اپنی جائیداد میں کچھ حصہ فروخت کرکے اپنا قرضہ ادا کرنا چاہتا ہے ،لیکن اولاد کا اپنے والد کو قرضہ ادا کرنے سے روکنا اور ان کے ساتھ انتہائی بدسلوکی اور تذلیل کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے،حضورﷺ نے والد کو جنت کا بڑا دروازہ قرار دیا ہے ،والد کی ناراضگی (اگر جائز کام میں ہو تو اس)کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی شمار کیا ہے ،پھر ارشاد فرمایا کہ والد ین کے نافرمان کو اللہ تعالیٰ دنیا میں نقد سزا دیتے ہیں ،مذکورہ بالا مسئلہ میں اولاد کو اپنے غلط رویہ سے توبہ واستغفار کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب کا اندیشہ ہے پھر والد بھی اپنا قرضہ ادا کرنے کے لئے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ فروخت کرنا چاہتے ہیں ،قرضہ ادا کرنا خود ایک ضروری اور شرعی معاملہ ہے جب تک قر ضہ ادا نہ کیا جائے اس وقت اللہ تعالیٰ بھی اس کو معاف نہیں فرماتے ،اور اگر والد کا انتقال ایسی حالت میں ہوجائے کہ ان کے ذمہ قرضہ ہو شرعی طور پر ترکہ اولادمیں اس وقت تک تقسیم نہیں ہوگا جب تک لوگوں کا قرضہ ادا نہ کردیا جائے ۔
صورت مسؤلہ میں سائل اولاد کو سمجھا کر کسی طرح اپنا قرضہ ادا کرنے کی کوشش کرے اور اگر سب کوششوں کے باوجودبھی اولاد قرضہ ادا نہیں کرنے دیتی ،تواپنے قرضے کی مکمل تفصیل کسی تحریری صورت میں لکھ کر وصیت کرجائے ،قرضے ادا نہ کرنے کی صورت میں اولاد عنداللہ مجرم ہوگی۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴾
(سورۃ بنی اسرائیل 23)
ترجمہ:
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا
احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَضِيَ الربِّ فِي رضى الْوَالِدِ وَسُخْطُ الرَّبِّ فِي سُخْطِ الْوَالِدِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الاداب ،باب البر والصلۃ ،الفصل الثانی3/1379 رقم 4927 ط المکتب الاسلامی)
ترجمہ: " اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پروردگار کی رضامندی و خوشنودی ماں باپ کی رضا مندی اور خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناخوشی وناراضگی میں ہے۔ ترمذی۔
وَعَن أبي
الدَّرْدَاء أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّ لِي امْرَأَةً وَإِن لي أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا؟ فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَحَافِظْ عَلَى الْبَابِ أَوْ ضَيِّعْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه
(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الاداب ،باب البر والصلۃ ،الفصل الثانی3/1379 رقم 4928 ط المکتب الاسلامی)
ترجمہ: حضرت ابودرداء ؓ نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کہ والد جنت کے بہترین دروازوں میں سے ہے (یعنی والد کی رضا مندی وخوشنودی کو ہر حالت میں ملحوظ رکھنا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اس لئے جو شخص چاہتا ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے وہ دروازہ اختیار کرے جو بہترین دروازوں میں سے ہے تو اس کو چاہیے کہ والد کی رضا مندی وخوشنودی کو ہر حالت میں ملحوظ رکھے ) پس تم کو اختیار ہے کہ چاہے اس دروازے کی محافظت کو اور چاہے اس کو ضائع کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَصْبَحَ مُطِيعًا لِلَّهِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا. وَمَنْ أَمْسَى عَاصِيًا لِلَّهِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ النَّارِ وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا» قَالَ رَجُلٌ: وَإِنْ ظَلَمَاهُ؟ قَالَ: «وَإِنْ ظلماهُ وإِن ظلماهُ وإِنْ ظلماهُ»
(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الاداب ،باب البر والصلۃ ،الفصل الثالث3/1382 رقم 4943 ط المکتب الاسلامی)
ترجمہ: " اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والا یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق ادا کر کے اللہ کے حکم کی اطاعت کی ہے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے ایک کوئی زندہ ہو کہ جس کی اس نے اطاعت و فرمانبرداری کی تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور جس شخص نے اس حالت میں صبح کی وہ ماں باپ کے حق میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنے والا ہے یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی اللہ کے حکم کے نافرمانی کی ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لئے دوزخ کے دو دروازے کھولے ہوتے ہیں اور اگر ماں باپ میں کوئی ایک زندہ ہے جس کی اس نے نافرمانی کی تو اس کے لئے ایک دروزاہ کھولا جاتا ہے یہ ارشاد سن کر ایک شخص نے عرض کیا اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں۔
وَعَنْ أَبِي
بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»
(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الاداب ،باب البر والصلۃ ،الفصل الثالث3/1383 رقم 4945 ط المکتب الاسلامی)
ترجمہ: " اور حضرت ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں ہی جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ» . رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ
(مشکوۃ المصابیح ،کتاب البیوع باب الافلاس والانظار،الفصل الثانی 2/880 رقم 2915 ط المکتب الاسلامی)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے ( یعنی جب کوئی شخص قرضدار مرتا ہے تو اس کی روح اس وقت تک بندگان صالح کی جماعت میں داخل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
ثُمَّ) تُقَدَّمُ (دُيُونُهُ الَّتِي لَهَا مُطَالِبٌ مِنْ جِهَةِ الْعِبَادِ) وَيُقَدَّمُ دَيْنُ الصِّحَّةِ عَلَى دَيْنِ الْمَرَضِ إنْ جُهِلَ سَبَبُهُ وَإِلَّا فَسِيَّانِ كَمَا بَسَطَهُ السَّيِّدُ
کتاب الفرائض 6/760 ط سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ثُمَّ بِالدَّيْنِ وَأَنَّهُ لَا يَخْلُو إمَّا أَنْ يَكُونَ الْكُلُّ دُيُونَ الصِّحَّةِ أَوْ دُيُونَ الْمَرَضِ، أَوْ كَانَ الْبَعْضُ دَيْنَ الصِّحَّةِ وَالْبَعْضُ دَيْنَ الْمَرَضِ، فَإِنْ كَانَ الْكُلُّ دُيُونَ الصِّحَّةِ أَوْ دُيُونَ الْمَرَضِ فَالْكُلُّ سَوَاءٌ لَا يُقَدَّمُ الْبَعْضُ عَلَى الْبَعْضِ، وَإِنْ كَانَ الْبَعْضُ دَيْنَ الصِّحَّةِ وَالْبَعْضُ دَيْنَ الْمَرَضِ يُقَدَّمُ دَيْنُ الصِّحَّةِ إذَا كَانَ دَيْنُ الْمَرَضِ ثَبَتَ بِإِقْرَارِ الْمَرِيضِ، وَأَمَّا مَا ثَبَتَ بِالْبَيِّنَةِ أَوْ بِالْمُعَايَنَةِ فَهُوَ وَدَيْنُ الصِّحَّةِ سَوَاءٌ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ
(کتاب الفرائض الباب الاول 6/447 ط رشیدیہ)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
دارالافتاء مدرسہ عارف العلوم کراچی
15مارچ 2023/22شعبان المعظم 1444ھ
فتویٰ نمبر:270
خدا کی قسم جب بھی میں یہ گناہ کروں تو ہزار روپے صدقہ دوں گا
سوال
میرا ایک سوال ہے۔اس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :میں نے خدا کی قسم کھائی کہ جب بھی میں یہ گناہ کروں گا تو ہر بار 1000 روپے صدقہ دوں گا ،یا یہ کہ میں یہ گناہ نہیں کروں گا
اگر کبھی کیا تو ہر بار 1000 روپے صدقہ دوں گا ،پھر میں نے یہ گناہ 4 بار کرلیا تو اب اس کا کفارہ ادا ہوگا یا 4000 روپے صدقہ دینا ہوگا یا دونوں ادا کرنا ہوں گے؟
جواب
واضح رہے کہ اگر نذر کو ایسے الفاظ کے ساتھ معلق کیا جس کا ہونا مطلوب ومقصود ہو تو یہ فقط نذر ہوگی اور نذر پوری ہونے کی صورت میں جس چیز کی نذر مانی گی ہے اس کا ادا کرنا ضروری ہوگا۔اور اگر نذر کو ایسی چیز کے ساتھ معلق کیا گیا جس کا نہ ہونا مطلوب ومقصود ہو تو یہ ایک اعتبار سے نذر ہے اور ایک اعتبار سے یمین (قسم )ہےلہذا شرط پائے جانے کی صورت میں مذکورہ شخص کو اختیار ہوگا کہ چاہے وہ قسم کا کفارہ دے دے یا جو نذر مانی ہے اس کو ادا کردے۔
صورت مسؤلہ میں سائل نے جب یہ کہا کہ "خدا کی قسم جب بھی میں یہ گناہ کروں تو ہر بار 1000 روپے صدقہ دوں گا"اس کے بعد سائل نے 4 مرتبہ مذکورہ گناہ کرلیا تو اب اس کو اختیار ہے چاہے 4000 روپے صدقہ کردے یا قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردے ،قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو، کھجور یا کشمش دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے، یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔
اور اگر کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔
اور سائل کے بہتر یہ ہے کہ گناہوں سے بچنے کے لئے اور اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے لئےکسی شیخ کامل متبع سنت سے اصلاحی تعلق قائم کرلے،اس تعلق کی برکت سے گناہ خود بخود چھوٹنا شروع ہوجائیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
ثُمَّ إنَّ) الْمُعَلَّقَ فِيهِ تَفْصِيلٌ فَإِنْ (عَلَّقَهُ بِشَرْطٍ يُرِيدُهُ كَأَنْ قَدِمَ غَائِبِي) أَوْ شُفِيَ مَرِيضِي (يُوَفِّي) وُجُوبًا (إنْ وُجِدَ) الشَّرْطُ (وَ) إنْ عَلَّقَهُ (بِمَا لَمْ يُرِدْهُ كَإِنْ زَنَيْت بِفُلَانَةَ) مَثَلًا فَحَنِثَ (وَفَّى) بِنَذْرِهِ (أَوْ كَفَّرَ) لِيَمِينِهِ (عَلَى الْمَذْهَبِ) لِأَنَّهُ نَذْرٌ بِظَاهِرِهِ يَمِينٌ بِمَعْنَاهُ فَيُخَيَّرُ ضَرُورَةً.
قَوْلُهُ لِأَنَّهُ نَذْرٌ بِظَاهِرِهِ إلَخْ) لِأَنَّهُ قَصَدَ بِهِ الْمَنْعَ عَنْ إيجَادِ الشَّرْطِ فَيَمِيلُ إلَى أَيِّ الْجِهَتَيْنِ شَاءَ بِخِلَافِ مَا إذَا عَلَّقَ بِشَرْطٍ يُرِيدُ ثُبُوتَهُ لِأَنَّ مَعْنَى الْيَمِينِ وَهُوَ قَصْدُ الْمَنْعِ غَيْرُ مَوْجُودٍ فِيهِ لِأَنَّ قَصْدَهُ إظْهَارُ الرَّغْبَةِ فِيمَا جُعِلَ شَرْطًا دُرَرٌ
(کتاب الایمان 3/738،739 ط سعید)
الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:
ومن نذر نذرا مطلقا فعليه الوفاء" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى" "وإن علق النذر بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر" لإطلاق الحديث ولأن المعلق بشرط كالمنجز عنده "وعن أبي حنيفة رحمه الله أنه رجع عنه وقال إذا قال إن فعلت كذا فعلي حجة أو صوم سنة أو صدقة ما أملكه أجزأه من ذلك كفارة يمين وهو قول محمد رحمه الله" ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضا وهذا إذا كان شرطا لا يريد كونه لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء بخلاف ما إذا كان شرطا يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه وهو المنع وهذا التفصيل هو الصحيح.
(کتاب الایمان،فصل فی الکفارۃ 2/321 ط دار احیاء التراث العربی)
دارالافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور کے فتاوی میں ہے:
واضح رہے کہ اگر نذر کو ایسی شرط کے ساتھ معلق کیا جائےکہ جس کا ہونا آدمی کو مطلوب ہو،تووہ فقط نذر ہوگی،اور اگر ایسی شرط ہو کہ جس کا واقع ہونا آدمی کو مطلوب نہ ہو بلکہ اس سے باز رہنا مقصود ہو،تو یہ ایک اعتبار سے نذر اور دوسرے اعتبار سے قسم ہوگی، لہذا اگرچاہے تو نذر ادا کردے یا قسم کا کفارہ ادا کردے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ الفاظ کہ "اگر میں نے یہ گناہ دوبارہ کیا تو اتنی رقم صدقہ کروں گا"سے مقصود اپنےآپ کو گناہ سے باز رکھنا ہے ، لہذا اگر بعد میں وہ گناہ اس سے سر زد ہوجائےاوراتنی رقم نہ ہو کہ نذر ادا کرسکے،تو قسم کا کفارہ ادا کرنے سے بھی ذمہ فارغ ہوجائےگا۔
(گناہ سے بچنے کی نذر مان کر اس میں مبتلا ہونے کی صورت میں کفارہ قسم۔فتویٰ نمبر:
5773/297/328)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
29ربیع الاول 1447ھ/23 ستمبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:479
متعدد امور پر قسم کھانے کی صورت میں متعدد کفارہ کا وجوب ہوگا
سوال
میں نے خدا کی قسم کھائی کہ میں سگریٹ نہیں پیوں گا،جھوٹ نہیں بولوں گا،اور دھوکہ نہیں دوں گا،پھر میں نے یہ تینوں کام کرلئے تو کیا مجھے ایک ہی کفارہ ادا کرنا ہوگایا تینوں قسموں کے تین الگ الگ کفارے ادا کرنے ہوں گے؟
جواب
مختلف اور متعدد امور پر قسمیں کھانے کےبعد ان کو توڑدینے کی صورت میں ہر قسم کا الگ الگ کفارہ ادا کرنا ضروری ہے ۔
صورت مسؤلہ میں سائل نے جب یہ قسمیں کھائیں کہ "میں سگریٹ نہیں پیوں گا،جھوٹ نہیں بولوں گا،اور دھوکہ نہیں دوں گا"پھر اس نے یہ تینوں کام کرلئے تو ہر ایک فعل کا الگ الگ کفارہ دینا ہوگا۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو، کھجور یا کشمش دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے، یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔
اور اگر کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغۡوِ فِيٓ أَيۡمَٰنِكُمۡ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ ٱلۡأَيۡمَٰنَۖ فَكَفَّٰرَتُهُۥٓ إِطۡعَامُ عَشَرَةِ مَسَٰكِينَ مِنۡ أَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُونَ أَهۡلِيكُمۡ أَوۡ كِسۡوَتُهُمۡ أَوۡ تَحۡرِيرُ رَقَبَةٖۖ فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٖۚ ذَٰلِكَ كَفَّٰرَةُ أَيۡمَٰنِكُمۡ إِذَا حَلَفۡتُمۡۚ وَٱحۡفَظُوٓاْ أَيۡمَٰنَكُمۡۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمۡ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (سورہ المائدہ 89)
فتاوی شامی میں ہے:
وَتَتَعَدَّدُ الْكَفَّارَةُ لِتَعَدُّدِ الْيَمِينِ، وَالْمَجْلِسِ وَالْمَجَالِسِ سَوَاءٌ؛ وَلَوْ قَالَ: عَنَيْت بِالثَّانِي الْأَوَّلَ فَفِي حَلِفِهِ بِاَللَّهِ لَا يُقْبَلُ، وَبِحَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ يُقْبَلُ. وَفِيهِ مَعْزِيًّا لِلْأَصْلِ: هُوَ يَهُودِيٌّ هُوَ نَصْرَانِيٌّ يَمِينَانِ، وَكَذَا وَاَللَّهِ وَاَللَّهِ أَوْ وَاَللَّهِ وَالرَّحْمَنِ فِي الْأَصَحِّ.
(قَوْلُهُ وَتَتَعَدَّدُ الْكَفَّارَةُ لِتَعَدُّدِ الْيَمِينِ) وَفِي الْبُغْيَةِ: كَفَّارَاتُ الْأَيْمَانِ إذَا كَثُرَتْ تَدَاخَلَتْ، وَيَخْرُجُ بِالْكَفَّارَةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ عُهْدَةِ الْجَمِيعِ. وَقَالَ شِهَابُ الْأَئِمَّةِ: هَذَا قَوْلُ مُحَمَّدٍ. قَالَ صَاحِبُ الْأَصْلِ: هُوَ الْمُخْتَارُ عِنْدِي. اهـ. مَقْدِسِيٌّ، وَمِثْلُهُ فِي الْقُهُسْتَانِيُّ عَنْ الْمُنْيَةِ (قَوْلُهُ وَبِحَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ يُقْبَلُ) لَعَلَّ وَجْهَهُ أَنَّ قَوْلَهُ إنَّ فَعَلْت كَذَا فَعَلَيَّ حَجَّةٌ ثُمَّ حَلَفَ ثَانِيًا كَذَلِكَ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الثَّانِي إخْبَارًا عَنْ الْأَوَّلِ، بِخِلَافِ قَوْلِهِ وَاَللَّهِ لَا أَفْعَلُهُ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ الثَّانِيَ لَا يَحْتَمِلُ الْإِخْبَارَ فَلَا تَصِحُّ بِهِ نِيَّةُ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَأَيْته كَذَلِكَ فِي الذَّخِيرَةِ. وَفِي ط عَنْ الْهِنْدِيَّةِ عَنْ الْمَبْسُوطِ: وَإِنْ كَانَ إحْدَى الْيَمِينَيْنِ بِحَجَّةٍ وَالْأُخْرَى بِاَللَّهِ تَعَالَى فَعَلَيْهِ كَفَّارَةٌ وَحَجَّةٌ (قَوْلُهُ وَفِيهِ مَعْزِيًّا لِلْأَصْلِ إلَخْ) أَيْ وَفِي الْبَحْرِ: وَالظَّاهِرُ أَنَّ فِي الْعِبَارَةِ سَقْطًا، فَإِنَّ الَّذِي فِي الْبَحْرِ عَنْ الْأَصْلِ: لَوْ قَالَ هُوَ يَهُودِيٌّ هُوَ نَصْرَانِيٌّ إنْ فَعَلَ كَذَا يَمِينٌ وَاحِدَةٌ، وَلَوْ قَالَ هُوَ يَهُودِيٌّ إنْ فَعَلَ كَذَا هُوَ نَصْرَانِيٌّ إنْ فَعَلَ كَذَا فَهُمَا يَمِينَانِ
(کتاب الایمان 7/714 ط سعید)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
29ربیع الاول 1447ھ/23 ستمبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:480
حالت جنابت یا حیض ونفاس کی حالت میں میت کو غسل دینے کا حکم
سوال
کیا حائضہ غسالہ میت کو غسل دے سکتی ہے
جواب
جنابت یا حیض و نفاس کی حالت میں میت کو تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر غسل دینا مکروہ ہے،اس لئے بہتر یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون پاکی کی حالت میں ہو اور وہ میت کو غسل دے سکتی ہے تو حائضہ خاتون میت کو غسل نہ دے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ غَاسِلُ الْمَيِّتِ عَلَى الطَّهَارَةِ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ، وَلَوْ كَانَ الْغَاسِلُ جُنُبًا أَوْ حَائِضًا أَوْ كَافِرًا جَازَ وَيُكْرَهُ، كَذَا فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ.
(کتاب الصلوۃ،الباب الحادی والعشرون فی الجنائز ،الفصل الثانی فی غسل المیت 1/159 ط رشیدیہ)
احکام میت میں ہے:
جو شخص حالت جنابت میں ہو یا عورت حیض یا نفاس میں ہو وہ میت کو غسل نہ دے ،کیونکہ اس کا غسل دینا مکروہ ہے۔
(باب سوم :غسل وکفن کے مسائل صفحہ 42 ط ادارۃ المعارف کراچی)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
یکم ربیع الثانی 1447ھ/25 ستمبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:483
نماز جمعہ کے لئے شہر یا قریہ کبیرہ ضروری ہے
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تھر انسٹی ٹیوٹ آف انجئیرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی مٹھٹہ بھٹی میں واقع ہے،یہ جگہ اسلام کوٹ اور مٹھی دونوں شہروں کے بیچ میں مین روڈ پر واقع ہے ،دونوں شہروں سے فاصلہ تقریبا 20،20 کلومیٹر ہے ،یہاں پڑھنے والے طلبہ اوراساتذہ کرام اور ملازمین مٹھی شہر میں رہتے ہیں اور روز صبح یونیورسٹی کی بس میں مٹھی سے یہاں آتے ہیں اور شام کو واپس مٹھی جاتے ہیں ،نماز کے لئے ہم نے کیمپس میں ایک جگہ مختص کی ہے ،لیکن جمعہ کی نماز کا مسئلہ ہے ،یہاں سے 3 کلو میٹر دور ایک گاؤں ہے جہاں ایک چھوٹی سی مسجد ہے جہاں نماز جمعہ ادا کیا جاتا ہے ،گاؤں کا نام مٹھٹہ یو ہے یہ چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں زیادہ تعداد ہندؤں کی ہے ہمارے شاگردوں کی کل تعداد 175 ہے جن میں اندازا 50 فیصد مسلمان ہیں ،اسٹاف اوراساتذہ کرام کی تعداد 35 ہے،ہمارے پاس ایک بس ہے جو روز صبح تین چکر ان کو لانے کے لئے لگاتی ہے،کیمپس سے 20 منٹ کا وقت لگتاہے اور ایک چکر پورا ہونے کے لئے ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے اس طرح دوپہر 2:50 واپسی کے تین چکر لگتے ہیں ان سب کو اپس چھوڑنے کے لئے ۔ہم یہ چاہتے ہیں جمعہ کی بھی ہم اپنے کیمپس میں ادا کرسکیں اس کے لئے آپ سے شرعی فتو یٰ درکار ہے ۔کیا ہم اپنے کیمپس میں جو جگہ نماز کے لئے مقرر کی ہے اس میں جمعہ کی نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں ؟
جواب
واضح رہے کہ جمعہ کی نماز ادا کرنے لئے شہر،یاایسی بڑی بستی اور دیہات ہونا ضروری ہے جس کی آبادی کم از کم ڈھائی ،تین ہزار افراد پر مشتمل ہو اور اس میں ضروریات زندگی میسر ہوں،گوشت سبزی،راشن کی دوکانیں موجود ہوں،حکیم ،ڈاکٹر ہوں ،حاکم یا پنچائیت کا نظام موجود ہو،درزی ،موچی اور ضروری پیشہ وروہاں موجود ہوں ،اور آس پاس دیہات والے اپنی ضروریات وہاں سے پوری کرتے ہوں۔
صورت مسؤلہ میں مذکورہ یونیورسٹی مٹھٹہ بھٹی میں واقع ہے اگر وہاں جمعہ کی مذکورہ بالا شرائط پائی جاتی ہیں تو ان کا یونیورسٹی میں نماز جمعہ قائم کرنا جائز ہے ،بصورت دیگر جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ ظہر کی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
(وَيُشْتَرَطُ لِصِحَّتِهَا) سَبْعَةُ أَشْيَاءَ:
الْأَوَّلُ: (الْمِصْرُ وَهُوَ مَا لَا يَسَعُ أَكْبَرُ مَسَاجِدِهِ أَهْلَهُ الْمُكَلَّفِينَ بِهَا) وَعَلَيْهِ فَتْوَى أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مُجْتَبًى لِظُهُورِ التَّوَانِي فِي الْأَحْكَامِ وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ أَنَّهُ كُلُّ مَوْضِعٍ لَهُ أَمِيرٌ وَقَاضٍ يَقْدِرُ عَلَى إقَامَةِ الْحُدُودِ كَمَا حَرَّرْنَاهُ فِيمَا عَلَّقْنَاهُ عَلَى الْمُلْتَقَى.
وَالْحَدُّ الصَّحِيحُ مَا اخْتَارَهُ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ أَنَّهُ الَّذِي لَهُ أَمِيرٌ وَقَاضٍ يُنَفِّذُ الْأَحْكَامَ وَيُقِيمُ الْحُدُودَ وَتَزْيِيفُ صَدْرِ الشَّرِيعَةِ لَهُ عِنْدَ اعْتِذَارِهِ عَنْ صَاحِبِ الْوِقَايَةِ حَيْثُ اخْتَارَ الْحَدَّ الْمُتَقَدِّمَ بِظُهُورِ التَّوَانِي فِي الْأَحْكَامِ مُزَيَّفٌ بِأَنَّ الْمُرَادَ الْقُدْرَةُ عَلَى إقَامَتِهَا عَلَى مَا صَرَّحَ بِهِ فِي التُّحْفَةِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ بَلْدَةٌ كَبِيرَةٌ فِيهَا سِكَكٌ وَأَسْوَاقٌ وَلَهَا رَسَاتِيقُ وَفِيهَا وَالٍ يَقْدِرُ عَلَى إنْصَافِ الْمَظْلُومِ مِنْ الظَّالِمِ بِحِشْمَتِهِ وَعِلْمِهِ أَوْ عِلْمِ غَيْرِهِ يَرْجِعُ النَّاسُ إلَيْهِ فِيمَا يَقَعُ مِنْ الْحَوَادِثِ وَهَذَا هُوَ الْأَصَحُّ اهـ إلَّا أَنَّ صَاحِبَ الْهِدَايَةِ تَرَكَ ذِكْرَ السِّكَكِ وَالرَّسَاتِيقِ لِأَنَّ الْغَالِبَ أَنَّ الْأَمِيرَ وَالْقَاضِيَ الَّذِي شَأْنُهُ الْقُدْرَةُ عَلَى تَنْفِيذِ الْأَحْكَامِ وَإِقَامَةِ الْحُدُودِ لَا يَكُونُ إلَّا فِي بَلَدٍ كَذَلِكَ. اهـ.
(کتاب الصلوۃ باب الجمعہ 2/137 ط سعید )
دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فتاویٰ میں ہے:
واضح رہے کہ جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے لیے مصر ، فناء مصر یا ایسا قریہ کبیرہ ہونا شرط ہے جس کی آبادی تقریباً ڈھائی سے تین ہزار تک ہو اور اس میں روزمرہ ضروریات کی اشیاء کے لیے بازار یا دکانیں موجود ہوں اس کے برعکس قریہ صغیرہ(چھوٹا گاؤں ، چھوٹی بستی) میں ،جہاں مذکورہ بالا شرائط نہ ہوں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسے گاؤں کے لوگوں پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے۔
(گاؤں کے مضافات میں واقع بستیوں میں نماز جمعہ کا حکم فتوی نمبر : 144303100203)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
30ربیع الاول 1447ھ/24 ستمبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:481
مالک اور مزدور کا کام میں شراکت(شرکت اعمال)
سوال
گذارش یہ ہے کہ میں ایک دوکان کا مالک ہوں ،میں نے ایک کاریگر رکھا ہے جو میری دوکان میں UPS کاکام کرتا ہے جو اس کے کام کے پیسے لیتا ہے اب ہم اس کے ساتھ پارٹنر شپ کرنا چاہتے ہیں UPS کے سلسلے میں:
1۔UPS بنانا۔
2۔UPS اگر بنتا نہیں ہے تو مالک اس کو بیچ دیتا ہے وہ خرید لینا۔
3۔اس کو کباڑ میں بیچ دیتے ہیں اس میں جو پرافٹ ہوتا ہے ۔
4۔بعض سامان نکال کر بیچ دیتے ہیں اور بعض دفعہ پورا بک جاتا ہے۔
5۔UPS جب ٹھیک ہوتا ہے تو لگانے کے بھی پیسے لگتے ہیں جو مالک دیتا ہے۔
6۔بعض دفعہ UPS کی پوری فٹنگ بھی کرنی پڑتی ہے جس میں سامان دوکان کا ہوتا ہے اور اس کو لگانے کی مزدوری بھی ملتی ہے ۔ان سب کاموں میں دونوں کا برابر کا حصہ ہوگا ۔اس کا حکم قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کردیں ۔
تنقیح:دوکان کا مالک بھی کاریگر کے ساتھ کام کرتا ہے،کچھ کام مالک کو نہیں آتا تو کاریگر کرتا ہےاور بسا اوقات کوئی ایسا کام آجاتا ہے جو کاریگر کو بھی نہیں آتا تو پھر تیسرے شخص سے وہ کام کروایا جاتا ہے پیسے دیکر۔نیز دوکان کا مالک کاریگر کے ساتھ صرف UPS کے کام میں پارٹنر شپ کرنا چاہ رہا ہے باقی دیگر کام وہ جو دوکان میں کرتا ہے اس میں کاریگر کا کوئی عمل دخل نہ ہوگا،اور کاریگر بھی دوکان میں چند گھنٹوں کے لئے آتا ہے باقی وہ سارا دوسری جگہ بھی ملازمت کرتا ہے۔
جواب
دو یا زائد اشخاص اگر کسی مخصوص کام میں اس طرح شرکت کرلیں کہ وہ سب افراد کام کریں گے اورکام کرنے کی اجرت تمام لوگوں میں باہمی رضامندی سے فیصد کے اعتبار سے تقسیم ہوگی تو یہ جائز ہے،اس کو فقہ کی اصطلاح میں "شرکت اعمال "کہا جاتا ہے۔
صورت مسؤلہ میں سائل اگر کاریگر کے ساتھ UPS کے کام میں اس طرح شرکت کرتا ہے کہ جو بھی کام UPS سے متعلق دوکان میں آئے گا ،اس کی مرمت چاہئےمالک دوکان کرے یا کاریگراس کا نفع دونوں کے درمیان طے شدہ فیصد کے اعتبار سے تقسیم ہوگا ۔ایسی شرکت کرنا شرعا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
وَ) إمَّا (تَقَبُّلٌ) وَتُسَمَّى شَرِكَةَ صَنَائِعَ وَأَعْمَالٍ وَأَبْدَانٍ (إنْ اتَّفَقَ) صَانِعَانِ (خَيَّاطَانِ أَوْ خَيَّاطٌ وَصَبَّاغٌ) فَلَا يَلْزَمُ اتِّحَادُ صَنْعَةٍ وَمَكَانٍ (عَلَى أَنْ يَتَقَبَّلَا الْأَعْمَالَ) الَّتِي يُمْكِنُ اسْتِحْقَاقُهَا
وَمِنْهُ تَعْلِيمُ كِتَابَةٍ وَقُرْآنٍ وَفِقْهٍ عَلَى الْمُفْتَى بِهِ، بِخِلَافِ شَرِكَةِ دَلَّالِينَ وَمُغَنِّينَ وَشُهُودِ مَحَاكِمَ وَقُرَّاءِ مَجَالِسَ وَتَعَازٍ وَوُعَّاظٍ، وَسُؤَّالٍ لِأَنَّ التَّوْكِيلَ بِالسُّؤَالِ لَا يَصِحُّ قُنْيَةٌ وَأَشْبَاهٌ (وَيَكُونُ الْكَسْبُ بَيْنَهُمَا) عَلَى مَا شَرَطَا مُطْلَقًا فِي الْأَصَحِّ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِرِبْحٍ بَلْ بَدَلُ عَمَلٍ فَصَحَّ تَقْوِيمُهُ (وَكُلُّ مَا تَقَبَّلَهُ أَحَدُهُمَا يَلْزَمُهُمَا) وَعَلَى هَذَا الْأَصْلِ (فَيُطَالَبُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْعَمَلِ وَيُطَالِبُ) كُلٌّ مِنْهُمَا (بِالْأَجْرِ وَيَبْرَأُ) دَافِعُهَا (بِالدَّفْعِ إلَيْهِ) أَيْ إلَى أَحَدِهِمَا (وَالْحَاصِلُ مِنْ) أَجْرِ (عَمَلِ أَحَدِهِمَا بَيْنَهُمَا عَلَى الشَّرْطِ) وَلَوْ الْآخَرُ مَرِيضًا أَوْ مُسَافِرًا أَوْ امْتَنَعَ عَمْدًا بِلَا عُذْرٍ لِأَنَّ الشَّرْطَ مُطْلَقُ الْعَمَلِ لَا عَمَلُ الْقَابِلِ: أَلَا تَرَى أَنَّ الْقَصَّارَ لَوْ اسْتَعَانَ بِغَيْرِهِ أَوْ اسْتَأْجَرَهُ اسْتَحَقَّ الْأَجْرَ بَزَّازِيَّةٌ
(کتاب الشرکۃ 4/321،322،323 ط سعید)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
30ربیع الاول 1447ھ/24 ستمبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:482
ایام عادت سے پہلے خون نظر آنے کی صورت میں نماز کا حکم
سوال
مجھے 22 اگست کو ماہواری شروع ہوئی اور 31 اگست کو میں نے غسل کیا،پھر اب 19 ستمبر کو دوبارہ سے صرف ایک قطرہ ظاہر ہوا،اور مجھے عموما شروعات اسی طرح ہوتی ہےکہ پہلے دن ایک یا دو قطرے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دوسرے اور تیسرے دن بھی یہی ہوتا ہے اور تیسرے دن کی رات کو صحیح سے شروع ہوتا ہے پھر دس دن تک چلتا ہے ۔پھر میں نے 19 ستمبر کے بعد 21 ستمبر کی رات تک چیک کیا بالکل بھی نہیں ہوا ،ان تین دنوں میں اس ایک قطرہ کے بعد پھر میں نے 21 ستمبر کو ہی غسل کرلیا ،اب مجھے دو دن کے بعد 24 ستمبر کو تھوڑی سے ماہواری ہوئی اور اس کے بعد سے لیکر 26ستمبر تک کچھ بھی نہیں ہوا،تو پھر میں آج 27 ستمبر کو غسل کرکے نماز شروع کردی۔تواب میرے لئے شرعی حکم کیا ہے؟ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں ۔
تنقیح:ماہواری کے ایام عادت دس دن ہیں ،اور اس ماہ 3 دن پہلے خون شروع ہوا ہے۔؟
جواب
اگر کسی خاتون کو طہر صحیح کے بعد ایام عادت سے چند دن پہلے ماہواری شروع ہوجائےتو اس کی ممکنہ تین صورتیں بنتی ہیں:
1۔اگر ایام عادت کے دن اور ان دنوں( جن میں ماہواری شروع ہوئی ہے )کا مجموعہ دس دن سے نہ بڑھے تو خون نظر آتے ہی فورا نماز اور روزہ چھوڑ دے۔
2۔اگر ایام عادت سے اتنے دن پہلے خون نظر آیا کہ ان دنوں اور ایام عادت کے دنوں کو ملایا جائے تو مجموعہ دس دن سے اتنا بڑھ جائے کہ اس خون اور ایام عادت کے خون کو مستقل حیض بنانا ممکن ہو یعنی کم از کم اٹھارہ دن پہلے خون شروع ہوجائے تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ خون نظر آتے ہی نماز روزہ چھوڑدیا جائے۔
3۔اگر ایام عادت سے چند دن پہلے خون آیا اگر ان دنوں اور ایام عادت کے دنوں کو ملایا جائے تو مجموعہ دن دن سے تو بڑھ جاتا ہے لیکن اس خون کو مستقل خون بنانا درست نہ ہو تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ ایام عادت سے پہلے نظر آنے والا خون استحاضہ کے حکم میں ہوگا ،لہذا یام عادت تک نماز وغیرہ پڑھی جائے گی۔
صورت مسؤلہ میں مذکورہ خاتون کو طہر کے بعد ایام عادت سے تین دن قبل خون شروع ہوایعنی 19ستمبر ایک قطرہ ظاہر ہوا۔پھر 24 ستمبر کو دوبارہ تھوڑی سے ماہواری ہوئی ،تو 19 ستمبر سے لیکر 24 ستمبر تک حکما خون جاری سمجھا جائے گا ۔نیز مذکورہ خاتون کی ایام عادت دس دن ہیں تو ایام عادت سے جتنے دن پہلے خون ظاہر ہوا ہے وہ استحاضہ کے حکم میں ہے،ان دنوں کی نمازیں اگر خاتون نے ادا نہ کی ہوں تو ان کی قضا کرنا ضروری ہے،اور ایام عادت کے بعد سے حیض کے احکام شروع ہوں گے۔
منهل الواردين من بحار الفيض على ذخر المتأهلين في مسائل الحيض میں ہے:
فصل الانقطاع وكما) الكاف للمفاجأة أى أول ما (رأت الدم تترك الصلاة مبتدأة كانت أو معتادة) هذا ظاهر الرواية وعليه أكثر المشايخ وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى في غير رواية الأصول لا تترك المبتدأة ما لم يستمر الدم ثلاثة أيام قال في البحر والصحيح الأول كالمعتادة (وكذا) تترك الصلاة (إذا جاوز عادتها في عشرة) قال في المحيط وهو الأصح وهو قول الميداني وقال مشايخ بلخ تؤمر بالاغتسال والصلاة إذا حاوز عادتها وإما إذا زاد على العشرة فلا تترك بل تقضى مازاد على العادة كما يأتي (أو ابتدأ) الدم (قبلها) أي قبل العادة فإنها تترك الصلاة كما رأته لاحتمال انتقال العادة (إلا إذا كان الباقى من أيام طهرها ما لو صم إلى حيضها جاوز العشرة مثلًا امرأة عادتها فى الحيض سبعة وفى الطهر عشرون رأت بعد خمسة عشر من طهرها دما تؤمر بالصلاة إلى عشرين) لأن الظاهر انها ترى أيضًا فى السبعة أيام عادتها فإذا رأت قبل عادتها خمسة يزيد الدم على العشرة وإذا زاد عليها ترد إلى عادتها فلا يجوز لها ترك الصلاة قبل أيام عادتها هذا ما ظهر لى وقال المص هكذا اطلقوا لكن ينبغي أن يقيد بما إذا لم يسع الباقي من الطهر أقل الحيض والطهر وإلا فلا شك فى أن من عادتها ثلاثة في الحيض واربعون في الطهر إذا رأت بعد العشرين تؤمر بترك الصلاة انتهى
(رسائل ابن عابدین، منهل الواردين من بحار الفيض على ذخر المتأهلين في مسائل الحيض صفحہ 110 ط سھیل اکیڈمی)
حضرت مفتی احمد ممتاز صاحب احکام حیض،نفاس واستحاضہ میں لکھتے ہیں:
طہر صحیح کے بعد اگر ایام عادت میں خون نظر آئے تو فوراً نماز ،روزہ چھوڑدینا ضروری ہے ،اگر ایام عادت سے پہلے نظر آئے تو ایام قبلیہ اور ایام عادت کا مجموعہ دس دن سے بڑھے گا یا نہیں ،اگر نہ نہ بڑھے تو نماز ،روزہ چھوڑدے ،اگر بڑھ گیا تو ایام قبلیہ کے خون کو مستقل حیض بنانا ممکن ہوگا یا نہیں ،اگر مستقل حیض بنانا ممکن ہو تو نماز ،روزہ چھوڑدے ،اگر مستقل حیض بنانا ممکن نہیں تو نماز ،روزہ نہ چھوڑے۔
(احکام حیض ،نفاس واستحاضہ،سبق نمبر 4 ایام عادت سے قبل خون آنے کی مختلف صورتوں میں نماز کا حکم صفحہ 43 ط تعمیر معاشرہ جامعہ خلفائےراشدین)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
5 ربیع الثانی 1447ھ/29ستمبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:485
عشر کی رقم تملیک کرائے بغیر تنخواہ میں دے دی تو اب کیا حکم ہوگا؟
سوال
ایک مدرسہ کے مہتمم صاحب ایک مدرس کو تین سال تک تنخواہ کی جگہ عشر کے پیسے بطور تنخواہ دیتے رہے بغیر تملیک کروائے اور بغیر مدرس کے علم میں لائے(عشر کو)۔بعد میں مسئلہ معلوم ہوا کہ تملیک کرانی چاہئے تھی ۔اب کیا دوبارہ تنخواہ دینی پڑے گی یا نہیں ؟اور حال یہ ہے مدرس مستحق عشر ہے۔
جواب
دینی مدارس کے مہتممین شرعاً طلباء کرام کے وکیل ہیں،مالداروں کے وکیل نہیں ہیں ،لہذا جب کوئی شخص دینی مدرسہ میں زکوٰۃ یا عشر کی رقم جمع کراتا ہے ،مہتمم صاحب یا انہوں نے جن کو اموال جمع کرنے کی اجازت دے رکھی ان کے قبضہ میں زکوٰۃ کی آتی ہی ،صاحب مال کی زکوٰۃ اور عشر ادا ہوجاتا ہے ،لیکن مہتمم مدرسہ کے لئے مذکورہ مال کو مصرف زکوۃ یعنی طلباء کرام کی ضروریات وغیرہ میں خرچ کرنا ضروری ہے۔ تملیک کرائے بغیر مذکورہ رقم کومدرسین کی تنخواہ یا تعمیرات میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔
صورت مسؤلہ میں مدرسہ کے مہتمم صاحب نے لاعلمی میں عشر کی رقم تملیک کرائے بغیر مدرس کو تنخواہ میں دی تو اس صورت میں عشر دینے والوں کا عشر تو ادا ہوگیا ،لیکن مدرس کی تنخواہ ادا نہ ہوئی ،اب مہتمم صاحب پر لازم ہے کہ وہ مدرس کو تین سال کی تنخواہ دوبارہ ادا کریں ،اور جو عشر کی رقم مہتمم نے مدرس کو دی ہے ،وہ اس سے واپس لیکر طلباء کی ضروریات پر خرچ کی جائے۔
زکوۃ کے مسائل کے انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
دینی مدارس کے مہتمم طلباء کے وکیل ہیں ،مالداروں کے وکیل نہیں ہیں،کیونکہ مدرسہ کے طلباء نے جب ان کے اہتمام کو تسلیم کرلیا تو گویا یہ کہدیا کہ آپ ہمارے واسطے مالداروں سے زکوۃ وغیرہ وصول کرکے ہماری ضروریا ت میں صرف کردیں ،لہذا زکوۃ کی رقم مہتمم یا اس کے نمائندہ کےپاس جمع ہوتے ہی زکوۃ ادا ہوجائے گی ،البتہ مہتمم پر ضروری ہوگا کہ وہ زکوۃ کی رقم صرف طلباء کی ضروریا ت مثلا کھانا،پینا ،کپڑا،وظیفہ اور علاج وغیرہ میں خرچ کریں ،تنخواہ،بل وغیرہ میں خرچ نہ کریں۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
5ربیع الثانی 1447ھ/29 ستمبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:484
سودی رقم سے گھر اور گاڑی خریدی،اس کی تطہیر کی صورت؟
سوال
والد صاحب کی زندگی میں ہی ہم نے ایک پلاٹ لیا تھا اور اس کی اقساط ادا کرنے کے لئے کچھ پیسے المیزان انویسٹمنٹ میں انوسٹ کردئیے تھے. اس انویسٹمنٹ کی بدولت ہمیں جو منافع ملا اس میں کچھ
اور پیسے ملا کے ایک عدد کار لی اور اس وقت والد صاحب بھی حیات تھے.
سوال یہ ہے کے ان کی وفات کے بعد اب یہ گاڑی / کار کس کی ملکیت ہے؟ کیا یہ بھی انکی وراثت کے زمرے میں آتی ہے؟ اگر آتی ہے تو اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
اور جو گاڑی لی تھی اس میں والد صاحب کے 3 لاکھ اور 50 ہزار میرے تھے۔
گھر کے کل افراد ابھی والدہ کو ملا کے 06 ہے۔ جس میں سے 2 بھائی، 3 بہنیں اور 1 والدہ۔
اور اگر سب کے حصّہ دینا لازم ہو تو وقتاً فوقتا دیئے جا سکتے ہیں یا ایک ساتھ یکمشت دینا ہوگا؟
اس کے علاوہ والد صاحب نے اس گاڑی کو کبھی اپنا نہیں سمجھا اور نہ ہی اسکو چلانا وہ پسند کرتے تھے۔ اور نہ ہی اس گاڑی پر کبھی اپنا حق جتایا ۔ اور نہ ہی وہ والد صاحب کے نام پر تھی۔
تنقیحات:پلاٹ والدہ کےنام پر تھا،اور پیسے والد صاحب نے ادا کئے تھے۔المیزان میں پیسے انویسٹ کئے تھے پلاٹ کی قسط ادا کرنے کے لئے اور وہ رقم بھی والد صاحب نے ادا کی تھی۔اور جب میں نے
گاڑی لی تھی تو اس میں اکثر رقم والد صاحب کی تھی اور کچھ رقم میری تھی ،والد نے یہ رقم دیتے وقت نہ تو کچھ معاہدہ ہوا تھا اور نہ ہی قرض کے طور پر دئیے تھے۔
جواب
المیزان انوسمنٹ میں رقم انوسٹ کرنا اور ا س سے منافع حاصل کرنا ،ملک بھر کر جمہور مفتیان کرام کے ہاں ناجائز ،حرام اور سود کے حکم میں داخل ہے،اور ایسی رقم(یعنی سودی منافع) کو ثواب کی نیت
کے بغیر غرباء اور مستحقین میں صدقہ کرنا ضروری ہے ، اور اس میں وراثت بھی جاری نہیں ہوتی۔لہذا المیزان میں رقم جمع کرواکر حاصل ہونے والے سودی نفع سے پلاٹ کی اقساط ادا کرنا اور گاڑی خریدنا
جائز نہ تھا۔اب اس مکان اور گاڑی کی تطہیر (پاکی) کا طریقہ یہ ہے کہ بینک میں رقم انوسٹ کروانے سے جتنا نفع حاصل ہوا ،اس کا مکمل حساب لگاکر اتنی رقم ثواب کی نیت کے بغیر غرباء،فقراءاور مساکین
پر یکمشت یا اقساط کی صورت میں صدقہ کردی جائے،اور حرام کمائی سےصدق دل توبہ واستغفار بھی کرے اور آئندہ کے لئے سودی معاملہ نہ کرنے کا عزم بھی کرے۔
صورت مسؤلہ میں سائل نے جب گاڑی خریدی تو اس میں اکثر رقم والد مرحوم کی تھی اور کچھ رقم سائل کی تھی ۔گاڑی خریدتے وقت اگر والد مرحوم نے سائل کو وہ رقم ہدیہ دینے کی صراحت کی تھی تو
اس صورت میں مذکورہ گاڑی سائل کی ملکیت شمار ہوگی اور اس میں وراثت جاری نہ ہوگی بصورت دیگر وہ بھی والد مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے بقدر تقسیم ہوگی۔
ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق مقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر اس پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرکے،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی مال میں سے ادا کرکے بقیہ کل جائیداد منقولہ(سونا ،چاندی ،نقدی وغیرہ)و غیر منقولہ (مکان ،زمین وغیرہ )کو 8 حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ بیوہ کو ،2 حصے ہر ایک بیٹے کو ،اور ایک ایک حصہ ہرایک بیٹی کو ملے گا۔
صورت تقسیم یہ ہوگی :
8 |
بیوہ
1 |
بیٹی
1 |
بیٹی
1 |
بیٹی
1 |
بیٹا
2 |
بیٹا
2 |
میــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت
7 |
یعنی کل ترکہ میں سے 12.5 فیصد حصہ بیوہ کو،25 فیصد حصہ ہر ایک بیٹے کو،اور 12.5 فیصد حصہ ہرایک بیٹی کو ملیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
وَالْحَاصِلُ أَنَّهُ إنْ عَلِمَ أَرْبَابَ الْأَمْوَالِ وَجَبَ رَدُّهُ عَلَيْهِمْ، وَإِلَّا فَإِنْ عَلِمَ عَيْنَ الْحَرَامِ لَا يَحِلُّ لَهُ وَيَتَصَدَّقُ بِهِ بِنِيَّةِ صَاحِبِهِ، وَإِنْ كَانَ مَالًا مُخْتَلِطًا مُجْتَمِعًا مِنْ الْحَرَامِ وَلَا يَعْلَمُ أَرْبَابَهُ وَلَا شَيْئًا مِنْهُ بِعَيْنِهِ حَلَّ لَهُ حُكْمًا، وَالْأَحْسَنُ دِيَانَةً التَّنَزُّهُ عَنْهُ فَفِي الذَّخِيرَةِ: سُئِلَ الْفَقِيهُ أَبُو جَعْفَرٍ عَمَّنْ اكْتَسَبَ مَالَهُ مِنْ أُمَرَاءِ السُّلْطَانِ وَمِنْ الْغَرَامَاتِ الْمُحَرَّمَاتِ وَغَيْرِ ذَلِكَ هَلْ يَحِلُّ لِمَنْ عَرَفَ ذَلِكَ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ طَعَامِهِ؟ قَالَ أَحَبُّ إلَيَّ فِي دِينِهِ أَنْ لَا يَأْكُلَ وَيَسَعُهُ حُكْمًا إنْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ الطَّعَامُ غَصْبًا أَوْ رِشْوَةً وَفِي الْخَانِيَّةِ: امْرَأَةٌ زَوْجُهَا فِي أَرْضِ الْجَوْرِ، وَإِنْ أَكَلَتْ مِنْ طَعَامِهِ وَلَمْ يَكُنْ عَيْنُ ذَلِكَ الطَّعَامِ غَصْبًا فَهِيَ فِي سَعَةٍ مِنْ أَكْلِهِ وَكَذَا لَوْ اشْتَرَى طَعَامًا أَوْ كِسْوَةً مِنْ مَالٍ أَصْلُهُ لَيْسَ بِطَيِّبٍ فَهِيَ فِي سَعَةٍ مِنْ تَنَاوُلِهِ وَالْإِثْمُ عَلَى الزَّوْجِ. اهـ
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،مطلب فیمن ورث مالا حراما5/99 ط سعید)
(وَتَصِحُّ بِإِيجَابٍ كَ وَهَبْت وَنَحَلْت وَأَطْعَمْتُك هَذَا الطَّعَامَ وَلَوْ) ذَلِكَ (عَلَى وَجْهِ الْمِزَاحِ) بِخِلَافِ أَطْعَمْتُك أَرْضِي فَإِنَّهُ عَارِيَّةٌ لِرَقَبَتِهَا وَإِطْعَامٌ لِغَلَّتِهَا بَحْرٌ (أَوْ الْإِضَافَةِ إلَى مَا) أَيْ إلَى جُزْءٍ (يُعَبَّرُ بِهِ عَنْ الْكُلِّ كَ وَهَبْت لَك فَرْجَهَا وَجَعَلْته لَك)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (وَتَتِمُّ) الْهِبَةُ (بِالْقَبْضِ) الْكَامِلِ
(کتاب الھبۃ 5/688 تا 690 ط سعید)
حضرت مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ العالی "اسلامی معیشت کے بنیادی اصول "میں لکھتے ہیں:
لہذا ایسے مال کے خبث اور حرمت سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی سب سے پہلا کام یہ کرے کہ ان ناجائز ذرائع آمدن کو ترک کردے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے ،توبہ واستغفار کرے۔دوسرا کا
م یہ کرے کہ ناجائز اور حرام کو بلا نیت ثواب فقراء میں صدقہ کرکے اپنے آپ کو فارغ کرے ،حلال اور جائز آمدنی کا انتظام کرے اور حلال روزی اور کمائی پر اکتفاء کرے خواہ اس کی مقدار کم ہو۔
(حرام مال سےاپنے آپ کو پاک اور بری کرنے کی مختلف صورتیں،صفحہ 260 ط اسلامی کتب خانہ)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
15 ربیع الثانی 1447ھ/9اکتوبر2025 ء
فتویٰ نمبر:485