

مدرسہ عارف العلوم
فتوے
سونا کا قرضہ سونے سے واپسی لینا
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کو پیسوں کی ضرورت ہے ،عمرو نے کہا کہ میرے پاس پیسے تو نہیں لیکن 37 گرام سونا ہے وہ میں آپ کو قرض کے طور پر دیتا ہوں ،ا س کو آپ
فروخت کرو اور پیسوں سے اپنا کاروبار کرو لیکن سال بعد مجھے وہی 37 گرام سونا واپس کروگے،کیا یہ معاملہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا یعنی سونا قرض پر دینا ۔
جواب
شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ قرض کی واپسی اس کے مثل سے کی جائے لہذا صورت مسؤلہ میں جب عمرو نے زیدکو 37 گرام سونا قرض دیا ،اور کہا کہ اس سونا کو بیچ کر اپنا کاروبار کرو اور سال بعد مجھے 37
گرام سونا واپس کردینا چاہے سوناکی قیمت اس وقت زیادہ ہو یا کم تو ایسا کرنا بالکل جائز ہے،اور یہ سود میں داخل نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
(عَقْدٌ مَخْصُوصٌ) أَيْ بِلَفْظِ الْقَرْضِ وَنَحْوِهِ (يَرِدُ عَلَى دَفْعِ مَالٍ) بِمَنْزِلَةِ الْجِنْسِ (مِثْلِيٍّ) خَرَجَ الْقِيَمِيُّ (لِآخَرَ لِيَرُدَّ مِثْلَهُ) خَرَجَ نَحْوُ وَدِيعَةٍ وَهِبَةٍ.
(کتاب البیوع ،باب المرابحۃ والتولیہ فصل فی القرض 5/161 ط سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے :
لِأَنَّ الدُّيُونَ تُقْضَى بِأَمْثَالِهَا
(کتاب العاریۃ 5/685 ط سعید )
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
17 ربیع الثانی 1447ھ/11 اکتوبر2025 ء
فتویٰ نمبر:486
زوجہ مفقود کا حکم
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک بھائی تھے جو تقریبا ً 10 سے 11 سال ہونے کو ہیں غائب ہیں،ان کا کچھ بھی پتہ نہیں اور اب تک ان کا کچھ بھی پتہ نہیں لگا ،مختلف ذرائع
سے بھی معلوم کرلیا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بیوی سے میں محمد فیضان اللہ شادی کرنا چاہتا ہوں اور میری بھابھی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے،شادی کی وجہ نمازی ،پرہیز گار اور سلجھی ہوئی عورت ہے۔
قرآن وحدیث کے مطابق اس کا حل بتادیں۔
جواب
اگر کوئی شخص مفقود (غائب) ہوجائے اور تلاش وبسیار کے باوجود اس کا کوئی پتہ معلوم نہ ہوسکےکہ وہ زندہ ہے یا مردہ تو اس کی بیوی کے لئے اصل حکم تو یہ ہے کہ عصمت و عفت کے ساتھ اپنی زندگی
گذار دے اور شوہر کے نوے برس ہونے تک صبر کرے ،اور اگر اس طرح زندگی گذارنا دشوار ہو تو مذہب مالکی کے مطابق اپنے شوہر کے نکاح سے چھٹکارا حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ عورت
عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرے اور گواہوں سے یہ ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا (شادی کے وقت موجود گواہوں کا ہونا ضروری نہیں ہےکوئی دوسرے لوگ بھی جن کو نکاح کا
علم ہو گواہی دے سکتے ہیں)پھر گواہوں سے اپنے شوہر کے مفقود اور لاپتہ ہونا ثابت کرے،عورت کے اس دعویٰ اور ثبوت کے بعد قاضی/حاکم خو د اس مفقود کی تلاش کرے ،صرف مفقود کے گھر
والوں کی تلاش پر اعتماد نہ کرے اور جہاں مفقود کے ملنے کے امکان ہو وہاں اپنا آدمی بھیجے ،سرکاری ذرائع کو استعمال کرے ،اخبارات و میڈیا کے ذریعہ اگر اس کی تلاش ممکن ہو تو وہ کرے، الغرض اس کی
تلاش وجستجو میں ہر ممکن کوشش کرے ،اور جب قاضی اس کی تلاش سے مایوس ہوجائےتو عورت کو مزید چار سال تک انتظار کرنے کا حکم دے ،اگر ان چار سالوں میں بھی مفقود کا کچھ علم نہ ہوسکے تو
عورت عدالت میں قاضی کے پاس حاضر ہوکر دوبارہ درخواست کرے جس پر قاضی اس کے شوہر کے مردہ ہونے کا حکم جاری کردے ،فیصلہ سنانے کے بعد عورت چار مہینے دس دن عدت وفات گذار کر
دوسرے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔
اور اگر عورت کو مزید چار سال گذارنے میں زنا میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہو یا نان ونفقہ کا انتظام عورت کے لئے مشکل ہو تو ایسی صورت میں مزید چار سال کی مدت گذارنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر
قاضی مناسب سمجھے تو تحقیق و تفتیش کے بعد اسی وقت بھی فسخ نکاح کا حکم جاری کرسکتالیکن شرط یہ ہے شوہر کے غائب ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہو اور عورت اس بات پر قسم کھائے کہ
میں بغیر شوہر کے مزید زندگی عفت وعصمت کے ساتھ قائم نہیں رکھ سکتی ۔قاضی کے پاس جب یہ ثبوت مکمل ہوجائے تو قاضی اس کو کہہ دے کہ میں نے تمہارا نکاح فسخ کردیا یا شوہر کی طرف سے
تمہیں طلاق دے دی ،اس کے بعد عورت کو تین ماہواری عدت طلاق گذار کر دوسرے شوہر سے نکاح کرنے میں شرعا اجازت ہوگی۔
اور اگر دوسری جگہ شادی کرنے کےبعد پہلا شوہر واپس آگیا تو اس عورت کا شوہر ثانی سے نکاح خود بخو د باطل ہوجائے گا اور عورت اپنے پہلےشوہر کو ملے گی۔اگر دوسرے نکاح کی رخصتی /خلوت صحیحہ
ہوچکی ہو تو شوہر ثانی کل مہر عورت کو دے گا ،اور عورت پر عدت طلاق لازم ہوگی ،اور عدت شوہر اول کے گھر گذارے گی لیکن عدت گذرنے تک شوہر اول کے لئے اس کے ساتھ صحبت کرنا جائز نہ
ہوگا۔اور اگر رخصتی /خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو تو نہ مہر واجب ہوگا اور نہ عدت واجب ہوگی۔
احسن الفتاویٰ میں ہے:
مفقود کی بیوی کے لئے بہتر ہے کہ شوہر کی عمر نوے برس ہونے تک صبر کرے ،اگر صبر نہ کرسکےتو ایسی مجبوری میں مذہب مالکی کے مطابق یہ عورت کسی حاکم مسلم کے ہاں دعویٰ پیش کرے اور گواہوں
سے مفقود کے ساتھ تا حال قیام نکاح حاکم کے پاس ثابت کرے ،نکاح کے اصل شاہد ضروری نہیں بلکہ شہادت بالتسامع کافی ہے یعنی نکاح کی عام شہرت سن کر نکاح پر شہادت دی جاسکتی ہے ،اس کے بعد
شوہر کے مفقود ہونے کی شہادت شرعیہ پیش کرے ،پھر حاکم اس شخص کی بقدر ممکن تلاش کرے جہاں اس کے جانے کا ظن غالب ہو وہاں آدمی بھیجے ،اور جہاں صرف احتمال ہو خط وغیرہ سے تحقیق
کرے ،اخبار میں اشتہار دینا مفید معلوم ہو تو یہ بھی کرے ،بہر کیف ہر ممکن صورت سے اس کی تلاش میں پوری کوشش کرے،دوسروں کے کہنے پر ہر گز اعتبار نہ کرے ،جب حاکم شوہر کے ملنے سے
بالکل ناامید ہوجائے تو عورت کو چار سال کی مہلت دے ،اگر ان چار سالوں میں بھی اس کی کوئی خبر نہ آئی تو عورت حاکم کے پاس دوبارہ درخواست پیش کرکے نکاح فسخ کروالے ،اور شوہر کو مردہ تصور
کرکے عدت موت چار ماہ دس دن گذار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ،اگر کہیں حاکم مسلم موجود نہ ہو یا وہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو تو جماعۃ المسلمین بطریق مذکورہ فسخ نکاح کا فیصلہ کرسکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد پہلا شوہر واپس آگیا تو اس کے احکام یہ ہیں۔(ا)یہ عورت اسی پہلے شوہر کو ملے گی ،جدید نکاح کی بھی ضرورت نہیں ،پہلا نکاح ہی کافی ہے۔(2)اگر
دوسرے شوہر نے خلوت صحیحہ کی ہو تو کل مہر دے گا ،اور عورت پر عدت طلاق واجب ہوگی ۔(3)عدت پہلے شوہر کے پاس گذارے گی مگر عدت گذارنے تک پہلے شوہر کے جماع کرنا جائز نہیں۔
(4)اگر دوسرے شوہر سے حالت نکاح میں یافسخ نکاح کے بعد عدت گذارنے سے قبل اولاد پیدا ہوگی تو یہ دوسرے شوہر کی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم دستخط کنندگان ذیل کے نزدیک مناسب یہ ہے کہ
حیلہ ناجز ہ ص 61 میں بعنوان "فائدہ" جو الفاظ لکھے گئے ہیں ان کو مندرجہ ذیل الفاظ میں تبدیل کردیا جائے۔
فائدہ:زوجہ مفقود کے لئے قاضی کی عدالت میں فسخ نکاح کی درخواست کے بعد جو مزید چار سال کے انتظار کا حکم دیا گیا ہے یہ اس صورت میں ہے جب کہ عورت کے لئے نفقہ اور گذارہ کا بھی کچھ انتظام ہو
اور عصمت و عفت کے ساتھ یہ مدت گذرانے پر قدرت بھی ہو،اور اگر اس کے نفقہ اور گذارہ کا کوئی انتظام نہ ہو ،نہ شوہر کے مال سے نہ کسی عزیز واقارب یا حکومت کے تکفل سے اور خود بھی محنت و
مزدوری پردہ و عفت کے ساتھ کرکے اپنا گذارہ نہیں کرسکتی تو جب تک صبر کرسکے شوہر کا انتظار کرے جس کی مدت ایک ماہ سے کم نہ ہو اس کے بعد قاضی یا کسی مسلمان حاکم مجاز کی عدالت میں فسخ نکاح
کا دعویٰ دائر کرے ،اور اگر نفقہ اور گذارہ کا تو انتظام ہے مگر شوہر کے رہنے میں اپنی عفت و عصمت کا اندیشہ قوی ہے تو سال بھر صبر کرنے کے بعد قاضی کی طرف مرافعہ کرے اور دونوں صورتوں میں
گواہوں کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ اس کا شوہر فلاں اتنی مدت سے غائب ہے اور اس نے اس کے لئے کوئی نان ونفقہ نہیں چھوڑا اور نہ کسی کو اس کا ضامن بنایا اور اس نے اپنا نفقہ اس کو معاف بھی نہیں
کیا اور اس پر عورت حلف بھی کرے اور دوسرے صورت یعنی عفت کے خطرہ کی حالت میں قسم کھائے کہ میں بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی ،قاضی کے پاس جب یہ ثبوت مکمل ہوجائے تو
قاضی اس کو کہ دے کہ میں نے تمہارا نکاح فسخ کردیا یقا شوہر کی طرف سے طلاق دیدی یا خود عورت کو اختیار دیدے کہ وہ اپنے نفس پر طلاق واقع کرے اور جب عورت طلاق اپنے نفس پر واقع کرے تو
قاضی اس طلاق کا نافذ کردے ۔
(کتاب الطلاق ،باب خیار الفسخ ،حکم زوجہ مفقود5/420،421،422 ط سعید)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
17 ربیع الثانی 1447ھ/11 اکتوبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:487
منبر مسجد میں شامل ہے یا نہیں؟مسجد میں آذان دینے کا حکم
سوال
ہماری مسجد سرکاری مسجد ہے،اس کا محراب مسجد میں داخل نہیں اور بھی کچھ جگہ ہے جو باہر برآمدے کے ساتھ ہے اور مینارہ کے ساتھ ہے وہ بھی مسجد میں داخل نہیں ہے ،محراب وغیرہ میں نماز پڑھنا
کافی مشکل ہوتا ہے ،اس وجہ سے ہم اس کو مسجد میں داخل کرنا چاہتے ہیں اور برآمدے اور مینار کے ساتھ جو حصہ بچا ہوا ہے اس کو بھی مسجد میں داخل کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے کیا اقدام کرنا پڑے گا ؟
اور یہ مسجد کے حصہ میں کیسے آئی گی؟اسی طرح اگر مستقبل میں مسجد کی توسیع کرنا پڑے تو اضافی جگہ کو مسجد شرعی بنانے کے لئے کیا اقدام ضروری ہوگا؟آذان محراب سے باہر دیں اس کا کوئی مسئلہ تو
نہیں ہے؟
نوٹ:ہمارا ادارہ (سوئی سدرن گیس کمپنی)وفاق سے منسلک ہے،ہمارے ادارہ میں جو بھی S.G.Mیعنی سینئر جرنل منیجر ہوگا وہ مسجد کا صدر ہوگا۔
جواب
محراب عموماً مسجد کا حصہ ہوتا ہے،امام کا محراب سے پاؤں باہر رکھ کر نماز پڑھانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ محراب خارجِ مسجد ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ امام اگر مکمل محراب میں کھڑا ہوجائے تو اس
صورت میں مقتدی اور امام کا مکان الگ ہونے کا شبہ ہوتا ہے،اور یہ مکروہ ہے۔ اس لئے فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ محراب مسجد کے حصہ میں داخل ہونے کے باوجود امام نماز پڑھاتے وقت اس طرح
کھڑا ہو کہ اس کے پاؤں محراب باہر ہوں ۔
بہر حال صورت مسؤلہ میں اگر واقعی محراب کا حصہ مسجد سے خارج ہے اسی طرح مسجد کے باہر برآمدے کے ساتھ اور مینارہ کے ساتھ جگہ مسجد سے ابھی تک خارج ہے اور اب نمازیوں کی کثرت کی وجہ
سے ان جگہوں کو یا آئندہ مستقبل میں توسیع مسجد کے وقت اضافی جگہ کو مسجد بنانے کی ضرورت پیش آئے تو ایسی صورت میں مسجد کی کمیٹی یا صدر مسجد(متولی مسجد)یا SMG کی اجازت سے ان جگہوں کو
مسجد میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
آذان مسجد کے اندر اور محراب میں بھی دی جاسکتی ہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ہے،فقہاء کرام نے خارج مسجد صرف اس لئے آذان دینے کا فرمایا تاکہ آذان کی آواز دور دور تک جاسکے موجودہ زمانہ میں
آذان چونکہ لاؤڈ اسپیکر پر دی جاتی ہے اس لئے اگر مسجد کے اندر بھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ آذان دی جائے تو یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
إذَا ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِمَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ عَلَى الْقَوْمِ لَا بَأْسَ بِأَنْ يَقُومَ الْإِمَامُ فِي الطَّاقِ لِأَنَّهُ تَعَذَّرَ الْأَمْرُ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَضِقْ الْمَسْجِدُ بِمَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ لَا يَنْبَغِي لِلْإِمَامِ أَنْ يَقُومَ فِي
الطَّاقِ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ تَبَايُنَ الْمَكَانَيْنِ اهـ.
يَعْنِي: وَحَقِيقَةُ اخْتِلَافِ الْمَكَانِ تَمْنَعُ الْجَوَازَ فَشُبْهَةُ الِاخْتِلَافِ تُوجِبُ الْكَرَاهَةَ وَهُوَ وَإِنْ كَانَ الْمِحْرَابُ مِنْ الْمَسْجِدِ كَمَا هِيَ الْعَادَةُ الْمُسْتَمِرَّةُ
(کتاب الصلوۃ،باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا،وقیام الامام لاسجودہ فی الطاق 2/27 ط دار الکتاب الاسلامی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
أَرْضُ وَقْفٍ عَلَى مَسْجِدٍ وَالْأَرْضُ بِجَنْبِ ذَلِكَ الْمَسْجِدِ وَأَرَادُوا أَنْ يَزِيدُوا فِي الْمَسْجِدِ شَيْئًا مِنْ الْأَرْضِ جَازَ لَكِنْ يَرْفَعُوا الْأَمْرَ إلَى الْقَاضِي لِيَأْذَنَ لَهُمْ، وَمُسْتَغَلُّ الْوَقْفِ كَالدَّارِ،
وَالْحَانُوتُ عَلَى هَذَا، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.
فِي الْكُبْرَى مَسْجِدًا أَرَادَ أَهْلُهُ أَنْ يَجْعَلُوا الرَّحْبَةَ مَسْجِدًا وَالْمَسْجِدَ رَحْبَةً وَأَرَادُوا أَنْ يُحْدِثُوا لَهُ بَابًا وَأَرَادُوا أَنْ يُحَوِّلُوا الْبَابَ عَنْ مَوْضِعِهِ فَلَهُمْ ذَلِكَ فَإِنْ اخْتَلَفُوا نُظِرَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَأَفْضَلُ
فَلَهُمْ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ.
(کتاب الوقف ،البا ب الحادی عشر فی المسجد ومایتعلق بہ ،الفصل الاول 2/456 ط رشیدیہ)
وَيَنْبَغِي أَنْ يُؤَذِّنَ عَلَى الْمِئْذَنَةِ أَوْ خَارِجَ الْمَسْجِدِ وَلَا يُؤَذِّنَ فِي الْمَسْجِدِ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وَالسُّنَّةُ أَنْ يُؤَذِّنَ فِي مَوْضِعٍ عَالٍ يَكُونُ أَسْمَعَ لِجِيرَانِهِ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ وَلَا يُجْهِدُ نَفْسَهُ. كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
(کتاب الصلوۃ الباب الثانی فی الاذان ،الفصل الثانی 1/55 ط رشیدیہ)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
محراب تو داخل مسجد ہے ،مگر اس کے باوجود امام کو اس طرح کھڑا ہونا چاہیے کہ اس کے پیر پورے خارج محراب ہوں یا کچھ حصہ خارج محراب ہو،اگر چہ داخل محراب کھڑے ہوکر نماز پڑھانے سے بھی
نماز ادا ہوجائے گی ۔
(کتاب الوقف ،باب احکام المساجد ،الفصل الثالث فی المحراب والمنبر 14 /450 ط فاروقیہ)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمازی زیادہ ہیں ،اور مسجد میں نہیں سماسکتے تو مسجد کو بڑھا لیا جائے ،جس طرف سے بھی جگہ ملے ،جگہ لیکر مسجد کو توسیع کرلیا جائے ۔
(کتاب الوقف ،باب احکام المساجد ،الفصل السادس فی التوسیع فی المسجد14/502 ط فاروقیہ)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
مسجد کے اندر آذان مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سے آواز دور تک نہیں پہنچتی جس سے آذان کا مقصد پوری طرح حاصل نہیں ہوتا ،اس لئے بلند جگہ پر آذان دینا مستحب ہے تاکہ دور تک آواز پہنچے
،فی نفسہ آذان کوئی ایسی چیز نہیں جو کہ احترام مسجد کے خلاف ہو۔
(کتاب الصلوۃ ،باب الاذان ،الفصل الاول فی الاذان 5/385 ط فاروقیہ)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
19 ربیع الثانی 1447ھ/13 اکتوبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:488
ایک بیٹا،آٹھ بیٹیاں ،تقسیم وراثت
سوال
جناب مفتی دارالافتاء مدرسہ عارف العلوم
محترم میری والدہ کا مؤرخہ 3 اکتوبر بروز جمعہ 2025 کو انتقال ہوگیا ،والدہ مرحومہ کافی عرصہ سے بیمار تھیں ،والدہ مرحومہ کے ترکہ میں حسب ذیل چیزیں شامل ہیں:
(1)نقدی،(2)زیور دو عدد چوڑیاں ،ایک چین ،ایک عدد نتھ(3)کپڑے استعمال شدہ،واکر،وہیل چئیر ،اسلامی کتب(4)چند نئے سوٹ(5) کچھ الیکڑیکل سامان جیسے استری ،جوسر
مشین،کراکری،برتن،وغیرہ
والدہ مرحومہ نے وصیت کی تھی ایک مہینے کی پنشن کی رقم اپنی ایک بیٹی کو دینے کا کہا تھا یا مستقبل میں ان کا رجحان یاادارہ تھا دینے کا،اسکا کیا حکم ہوگا؟والدہ مرحومہ نے جو چیزیں انہوں نے دی جس کو
بھی ۔یعنی اپنے بیٹے کو اپنی بیٹی /بیٹیوں کو اس کی بھی وضاحت فرمادیں۔والدہ مرحومہ کے نام پر کوئی جائیداد نہیں ہے،ورثاء میں ایک بیٹا اور آٹھ بیٹیاں ہیں (تمام شادی شدہ ) ہیں۔
قبر ،تدفین، ایدھی ایمبولینس ،میت گاڑی،کھانا اور دیگر یہ ورثاء نے مل جل کر کردئیے ہیں باہمی رضامندی سے۔اب برائے مہربانی راہنمائی فرمادیں کہ ان کے انتقال کے بعد معاملات ترکہ کی تقسیم کی
وضاحت فرمادیجئے (نیز یہ بھی وضاحت کردیجئے کہ سب ورثاء کی باہمی رضامندی سے معاملات مزید آسانی سے کس طرح حل کرسکتے ہیں ،تمام ورثاء کی باہمی رضامندی سے)
جواب
وارث کے لئے شرعا وصیت نافذ نہیں ہوتی اس لئے صورت مسؤلہ میں مرحومہ نے اپنی جس بیٹی کو پنشن دینے کی وصیت کی تھی وہ شرعا غیر معتبر ہے البتہ اگر دوسرے ورثاء خوشی سے اس وصیت پر
راضی ہوں تو مذکورہ وصیت نافذ کی جاسکتی ہے۔البتہ والدہ مرحومہ نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں سے جس کو جو چیز ھدیہ (گفٹ) کے طور پر دی تھی اور اس بیٹا/بیٹی نے اس پر قبضہ وتصرف بھی
حاصل کرلیا تھا تو وہ چیز اس کی ملکیت ہوگی اور اس میں اب وراثت جاری نہ ہوگی۔
ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے حقوق مقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرکے ،اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک
تہائی مال سے نافذ کرکے بقیہ کل ترکہ(سونا،چاندی ،نقدی ،سامان ،کپڑے وغیرہ)10 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔بیٹے کو دو حصے اور ہرایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔
صورت ِ تقسیم یہ ہوگی:
10 |
بیٹا 2 |
بیٹی 1 |
بیٹی 1 |
بیٹی 1 |
بیٹی 1 |
بیٹی 1 |
بیٹی 1 |
بیٹی 1 |
بیٹی 1 |
میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت
یعنی کل ترکہ میں سے 20 فیصد حصہ بیٹے کو اور دس فیصد حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
لَا تَجُوزُ الْوَصِيَّةُ لِلْوَارِثِ عِنْدَنَا إلَّا أَنْ يُجِيزَهَا الْوَرَثَةُ
(کتاب الوصایا ، الباب الاول6/90 ط رشیدیہ)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
19 ربیع الثانی 1447ھ/13 اکتوبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:489
طلاق کی عدت کتنی ہے؟اور عدت کی ابتداء کب سے ہوگی؟
سوال
طلاق کی عدت کی مدت کیا ہو گی؟
اگر شوہر نے 2 اکتوبر کو پیپر ارسال کیا اور بیوی کو 8 اکتوبر کو موصول ہوا تو عدت کب سے کب تک ہو گی؟
اگر طلاق کے 4 دن بعد حیض آ جائے تو وہ شمار ہوگایانہیں؟
جواب
صورت مسؤلہ میں جس عورت کو اس کے شوہر نےطلاق دی ہے اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو تین ماہواری عدت گذاری گی اور اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ کی پیدائش) ہے۔ طلاق کے متصل بعد عدت شروع ہوجاتی ہے لہذا اگر شوہر نے 2 اکتوبر کو طلاق دی تو عدت اسی دن سے شروع ہوجائی گی ، طلاق کےپیپر موصول ہونے کے دن کا انتظار کرنا شرعا غلط ہے۔نیز طلاق کے چار دن بعد اگر حیض آجائے تو وہ عدت میں شمار ہوگا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
وَعِدَّةُ الْحَامِلِ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا كَذَا فِي الْكَافِي. سَوَاءٌ كَانَتْ حَامِلًا وَقْتَ وُجُوبِ الْعِدَّةِ أَوْ حَبِلَتْ بَعْدَ الْوُجُوبِ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَسَوَاءٌ كَانَتْ الْمَرْأَةُ حُرَّةً أَوْ مَمْلُوكَةً قِنَّةً أَوْ مُدَبَّرَةً أَوْ مُكَاتَبَةً أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مُسْتَسْعَاةً مُسْلِمَةً أَوْ كِتَابِيَّةً كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.
وَسَوَاءٌ كَانَتْ عَنْ طَلَاقٍ أَوْ وَفَاةٍ أَوْ مُتَارَكَةٍ أَوْ وَطْءٍ بِشُبْهَةٍ كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ. وَسَوَاءٌ كَانَ الْحَمْلُ ثَابِتَ النَّسَبِ أَمْ لَا وَيُتَصَوَّرُ ذَلِكَ فِيمَنْ تَزَوَّجَ حَامِلًا بِالزِّنَا كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ.
(کتاب الطلاق الباب الثالث عشر فی العدۃ 1/528 ط رشیدیہ)
ابْتِدَاءُ الْعِدَّةِ فِي الطَّلَاقِ عَقِيبَ الطَّلَاقِ وَفِي الْوَفَاةِ عَقِيبَ الْوَفَاةِ، فَإِنْ لَمْ تَعْلَمْ بِالطَّلَاقِ أَوْ الْوَفَاةِ حَتَّى مَضَتْ مُدَّةُ الْعِدَّةِ فَقَدْ انْقَضَتْ عِدَّتُهَا كَذَا فِي الْهِدَايَةِ.
(کتاب الطلاق الباب الثالث عشر فی العدۃ 1/531،532 ط رشیدیہ)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
20 ربیع الثانی 1447ھ/14 اکتوبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:491
شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع
سوال
میرا نکاح ایک لڑکے سے گھر والوں کی اجازت سے ہوا ،کچھ وقت کے بعد گھر والوں نے اس لڑکے سے عدالت کے ذریعہ خلع لے لیا ،میرے گھر والوں نے عدالت میں یہ جھوٹ بول کر خلع کیا کہ وہ شرابی اور غلط لڑکا ہے جبکہ وہ لڑکا حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اس لڑکے نے نہ تو زبانی کلامی طلاق دی ہے اور نہ تحریری طور پر اور نہ وہ عدالت گیا ہے اور یہ خلع میری رخصتی سے پہلے ہوا تھا ۔۔،پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح عدالت کے ذریعہ جو خلع لیا ہے اس سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔
پھر اس کے بعد میرا نکاح ایک شیعہ لڑکے سے گھر والوں کی اجازت سے ہوا ،اس شرط پر کہ بعد میں وہ لڑکا سنی ہوجائے گا مگر پانچ سال گذرنے کے بعد بھی وہ اہل تشیع مذہب پر قائم ہے وہ تمام عبادات شیعہ مذہب پر کرتا ہے ،لیکن ان پانچ سالوں میں کبھی کسی صحابی کی گستاخی نہیں کی اور میں ایک سنی مسلمان لڑکی ہوں مذکورہ مسئلہ میں میرا نکاح اس شیعہ لڑکے سے ہوا یا نہیں ؟ابھی میرا نکاح باقی ہے یا نہیں ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے ۔اور میرے دو بچے بھی ہیں ،مجھے پہلے ان چیزوں کے بارے میں معلومات نہیں تھی جب گھر والوں نے کہا تو اس وقت میں نے شادی کر لیا۔اب اس کا حل بتادیں شرعی لحاظ سے مجھے کیا کرنا چاہئے ۔
جواب
واضح رہے کہ خلع ایک مالی معاملہ ہے جس میں دیگر معاملات کی طرح اس میں بھی جانبین (میاں ،بیوی)کی رضامندی ضروری ہے،شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت کا یک طرفہ خلع کا فیصلہ شرعا معتبر نہیں ہے۔
صورت مسؤلہ میں اگر سائلہ کے شوہر نے واقعی سائلہ کوطلاق یاخلع نہیں دی اور نہ ہی خلع کے فیصلہ پر رضامندی ظاہر کی ، تو ایسی خلع شرعا معتبر نہیں ہے ا ورسائلہ چونکہ بدستور اپنے شوہر اول کے نکاح میں ہے اس لئے اس کا دوسری جگہ شادی کرنا جائز ہی نہیں تھا اور نہ ہی دوسرا نکاح منعقد ہوا ہے لہذا سائلہ پر لازم ہے کہ وہ فوراً دوسرے شوہر سے جدائی اختیار کرلے ،اور اپنے اس فعل پر اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگے۔
فتاوی شامی میں ہے :
وَأَمَّا رُكْنُهُ فَهُوَ كَمَا فِي الْبَدَائِعِ: إذَا كَانَ بِعِوَضٍ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ لِأَنَّهُ عَقْدٌ عَلَى الطَّلَاقِ بِعِوَضٍ، فَلَا تَقَعُ الْفُرْقَةُ، وَلَا يُسْتَحَقُّ الْعِوَضُ بِدُونِ الْقَبُولِ
(کتاب الطلاق باب الخلع3/341 ط سعید)
فتاوی محمودیہ میں ہے :
خلع کے لئے شوہر کا رضامند ہونا ضروری ہے ،جب تک شوہر خلع کو منظور نہ کرے خلع نہیں ہوسکتا۔
(کتاب الطلاق ،باب الخلع واللعان 13/347 ط فاروقیہ)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءمدرسہ عارف العلوم کراچی
20 ربیع الثانی 1447ھ/14 اکتوبر 2025 ء
فتویٰ نمبر:490